ارسلان خالد خان
ترجمہ: تنویر انجم
چپس والا کے پاس سے گزرتے ہوئے
عصر کی نماز کے بعد مصالحہ چپس
تیل سے لتھڑے ہاتھ
چلتے چلیں
ایک پیپسی، شاید؟ سات سے تیرہ روپے کی
پھر عبداللہ بھائی کی بیکری
شاید ایک جلا ہوا کیک رسک، مفت میں
نہیں، آج نہیں۔ صرف جمعے کو
پھر گوشت والے
کیڑے لگے درختوں کے نیچے
درختوں سے گرتی بکروں کی آنتوں پر
بلیوں اور کووں کے جھپٹتے ہوئے ہجوم
آگے دکان پر سائن بورڈ
“Matric boks and suplies"
پھر پرنٹنگ پریس اور گیراج
مکینک کاروں اور موٹر سائیکلوں کی مرمت میں مصروف
اور پھر پتلی گلی آرکیڈ کو تقسیم کرتی ہوئی
جہاں بچے ’’اسٹریٹ فائٹر‘‘ کے مقابلے کرتے ہوئے
ڈر کے مارے مڑمڑ کر پیچھے دیکھتے رہتے ہیں
“بابر بھائی سے ہوشیار رہنا۔ وہ صحیح آدمی نہیں ہے”
وہیں ڈبو کی میز مردوں کے لیے
اس کے اطراف نوعمر لڑکے
سگریٹ پینا سیکھتے ہیں
عبدل کی پان کی دکان پر
جہاں امریکہ کی بنی مارلبورو لائٹس بکتی ہیں
انہیں یہودیوں نے بنایا ہے”
مسلمانوں کو نامرد بنانے کے لیے
یہ آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہے
عبدل ایک جاسوس ہے۔ ‘‘
ایک ردی پیپر والا اپنی موجودگی کا اعلان کرتا ہے
“ایک کلو کے چار آنے”
ماسٹر بیکری پر سموسے، جلیبیاں اور کیک رسک ہیں
ایک مہینے سے پکتے تیل میں بنے
خرم یہاں سے پکوڑے خریدتا ہے
مگر سموسے کبھی نہیں
اسے مرگی کا مرض ہے، تیل اس کی وجہ ہوسکتا ہے۔
گولے گنڈے کے اوپر گاڑھا دودھ مزیدار ہوتا ہے
لیکن اس کا ایک روپیہ زیادہ ہوتا ہے۔
“گولے گنڈے والے، تم ایک چور ہو۔”
وہ کہتا ہے“آٹے کی قیمت اس ہفتے چار روپے بڑھ گئی ہے”
ایک روپے کی ان دنوں کوئی قدر نہیں رہ گئی۔
گلیوں میں خاموشی ہے
رات کی نماز کا وقت ہو گیا ہے
شیعوں کی اذان بھی ہو چکی ہے
الاقصیٰ مسجد میں مولانا فضل کا گلا خراب ہے
ان کی جگہ ریکارڈ کا استعمال کیا گیا۔
لوگوں میں غصہ پھیلا ہوا ہے
“آج رات آخری آواز کس کی ہوگی۔”
آگے ہے الفاروق میدان
جس میں کبھی گھاس کی پتلی تہہ بچھی ہوئی تھی
اب یہ بجری سے ڈھکا ہے
رات میں اس پر ریبی زدہ دونسلی کتوں کا قبضہ ہوتا ہے۔
یہاں ایک پولیس مقابلہ ہوا تھا
پولیس نے ایک دہشت گرد کو گولی ماری
اورایک لڑکے کو ہلاک کردیا
جو گیارہ سال کا ہونے ہی والا تھا
’’ایک بلے باز، میانداد جیسا‘‘ وہ کہہ رہے تھے
لیکن مجھے شک ہے۔ مردہ لوگوں کو سب ایسے ہی یاد کرتے ہیں۔
شاید میں بھی اتنا خوش قسمت ہوں
کہ اپنی گراہم گوچ یونیفارم میں مروں
مگر مجھے ڈر ہے
کہ جو لڑکےانگلش یونیفارم میں مرتے ہیں
وہ جنت میں نہیں جاتے۔
سڑک کےاس پار آغا جوس ہائوس ہے
کلین شیو کیے نوجوان لڑکے وہاں
سرسید گرلز کالج کی لڑکیوں کا انتظار کرتے ہیں
پچھلی گلی کا سہیل وہیں بیٹھتا ہے
کبھی وہ اپنی جماعتی داڑھی شان سے لہراتا تھا
اب وہ کلین شیو ہے اور محبت میں مبتلا
مین روڈ پرایک سبز اور سفید بس خراب پڑی ہے
اس پر آراستہ ایک لڑاکا جیٹ کی تصویر
ایک مسجد کے اوپر اڑتا ہوا
اس کے نیچے الفاظ ’’اللہ حافظ ہو‘‘
فضا دھوئیں سے بوجھل ہے
شدید گرمی میں گاڑیوں کے ہارن چیخ رہے ہیں
ایک نرم خوشگوار جھونکا مجھے چھو کر گزرتا ہے
شاید ایک دن میں سمندر کے کنارے گھر بنا لوں۔